کتاب: رجال القرآن 5 - صفحہ 26
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے والد نے یہ سب کچھ بھانپ لیا، پوچھا: اتنی دیر کہاں تھے؟ کیا میں نے تم سے وعدہ نہیں لیا تھا کہ تم جلدی آجانا؟ سلمان رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ’’ابا جان! میں عیسائیوں کے ایک چرچ کے پاس سے گزرا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ مجھے ان کا دین بہت پسند آیا۔ میں وہیں رکا رہا حتی کہ سورج غروب ہو گیا۔‘‘
سلمان رضی اللہ عنہ کے والد نے کہا: میرے پیارے بیٹے! اس دین میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ تیرا اور تیرے باپ دادا کا دین اس سے کئی درجے بہتر ہے۔ سلمان نے کہا: ’’اباجان! آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ دین ہمارے دین سے کہیں بہتر ہے۔‘‘ [1]آپ جس دین سے بہتری کی آس لگائے بیٹھے ہیں وہ کسی کام کا نہیں۔
؎ تو جس چراغ سے بیٹھا ہے لو لگائے ہوئے
وہی چراغ اندھیرے میں رکھ رہا ہے تجھے
یہیں سے باپ اور بیٹے کے درمیان اختلاف شروع ہو جاتا ہے۔ باپ کو بیٹا تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب ہے۔ باپ وہ ہے جس نے جب سے ہوش سنبھالا، اپنے باپ دادا کو اسی آگ پر جھکتے ہوئے پایا، وہ آگ کے سامنے جھکتے اور اس کا قرب حاصل کرتے، سفر و حضر میں اس سے مشورہ کرتے۔ باپ نے کبھی اس بارے میں اپنی عقل پر زور نہیں دیا کہ یہ تو وہی آگ ہے جسے وہ خود بھڑکاتے ہیں۔ یہ چاہیں تو اس کو بجھا بھی دیں اور اگر کوئی ایندھن نہ ڈالے تو یہ خود ہی ٹھنڈی پڑ جائے گی، لہٰذا یہ معبود کیسے ہو سکتی ہے؟
جبکہ بیٹا وہ ہے جس کی بصیرت کو اللہ نے روشن کر دیا ہے، وہ اپنی عقل کو کام میں
[1] الطبقات لا بن سعد:4؍76، والسیرۃ النبویۃ لا بن ہشام:1؍235۔