کتاب: رجال القرآن 5 - صفحہ 25
کھیتوں کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں انھوں نے کچھ عجیب آوازیں سنیں۔ یہ آوازیں انھوں نے پہلے نہیں سنیں تھیں۔ ایک چرچ میں بڑی خوشی الحانی اور بڑے پیارے انداز سے قراء ت ہو رہی تھی اور ساتھ ساتھ سیٹیاں بھی بج رہی تھیں۔ ان کے دل میں ان آوازوں کی حقیقت جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ شہر میں بہت سارے معبد خانے تھے لیکن اس طرح کی آواز صرف اِسی ایک چرچ سے آ رہی تھی۔
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جب میں نے ان کی آوازیں سنیں تو میں اندر داخل ہو گیا کہ دیکھوں وہ کیا کر رہے ہیں۔ جب میں نے انھیں دیکھا تو مجھے ان کی عبادت پسند آئی۔ اور میں نے اپنے دل میں کہا: اللہ کی قسم! یہ ہمارے دین سے بہتر ہے۔ میں وہیں رکا رہا حتی کہ سورج غروب ہو گیا۔ میں کھیتوں کی طرف گیا ہی نہیں۔ میں نے ان سے پوچھا: اس دین کی اصل کہاں سے ہے؟ ‘‘ [1]
حق کو تلاش کرنے والی مقدس روحیں ایسی ہی ہوا کرتی ہیں۔ وہ حق کی پہلی شعاع ہی پہچان لیتی ہیں اور اس کے پیچھے چل کر منبع نور تک رسائی حاصل کر لیتی ہیں۔ وہ کلمات جو انھوں نے ان عبادت کرنے والوں سے سنے، ایسی روشنی ثابت ہوئے جس نے ان کی آنکھیں کھول دیں اور دل منور کر دیا۔ انھوں نے جان لیا کہ جس دین پر ان کے والد اور ان کی قوم ہے، وہ لائق اتباع نہیں، نہ یہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے۔ شام کو جب وہ اپنے والد محترم کے پاس آئے تو وہ نظریات نہیں تھے جو وہ صبح لے کر گھر سے نکلے تھے۔ اب ان کے تیور بدلے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں حیرت اور ہونٹوں پر سوالوں کی لمبی لائن تھی۔
[1] السیرۃ النبویۃ لا بن ہشام:1؍234۔