کتاب: رجال القرآن 5 - صفحہ 19
کر رہے۔ آج مسلمان انھی فتنوں میں مبتلا ہیں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، ان کے مابین وحدت و اتحاد نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ یہی و جہ ہے کہ ہر وہ شخص جو قرآن کا مطالعہ کرتا ہے یا اسے قرآنی علوم پر دسترس حاصل ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ جس طرح قرآن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے مشعلِ راہ اور عقدہ کشا تھا بالکل اسی طرح یہ آج بھی مسلمانوں کے مسائل کا حل اور ان کی تمام بیماریوں کا علاج ہے، اس لیے کہ قرآن حکمت والی، باخبر ذات کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ ﴿ أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ﴾ ’’بھلا وہ نہ جانے گا جس نے (سب کو) پیدا کیا اور وہی باریک بین، باخبر ہے۔‘‘ [1] اس کتاب میں ہم قرآن کے اس منہج اور طریقے کا تذکرہ کریں گے جس کے ذریعے وہ مَردوں کو تیار کرتا ہے، ہم دورِ حاضر کے لوگوں کی توجہ اس کتاب اللہ کی طرف مبذول کرائیں گے۔ اگر ہمیں توفیق مل گئی تو یہ اللہ کی طرف سے ہو گی۔ اگر ہماری اس کتاب کا مقصد اس طرح پورا نہ ہوا جس طرح ہم چاہتے ہیں تو ہمارے لیے اتنا کافی ہے کہ ہم اسلامی دلوں تک قرآن کی آواز پہنچانے اور مسلمانوں کی راہ میں ایک روشن چراغ رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ ﴿ وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾ ’’اور اس شخص سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جس نے(لوگوں کو) اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیے اور کہا: بے شک میں تو فرماں برداروں میں
[1] الملک 14:67۔