کتاب: رجال القرآن 5 - صفحہ 14
اخلاق و کردار سنوارتا ہے۔ تربیت کرتے ہوئے یہ اسے اعلیٰ منازل تک رسائی دلاتا ہے اور اپنے تصور کے مطابق اسے ایک کامل انسان بنا دیتا ہے۔ اس کے اندر ایک ایسی فطری طاقت بھر دیتا ہے کہ کائنات اس کے سامنے مسخر ہو جاتی ہے اور یوں وہ اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ثابت ہو تا ہے۔ یہ طاقت نہ تو کمزور ہوتی ہے اور نہ ہی سستی و کاہلی کا شکار ہوتی ہے بلکہ اللہ بلند و برتر کی نصرت و مدد سے احداث کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔ اللہ، اس کے دین اور انسانیت کے دشمنوں سے جہاد کرتی ہے۔ اور ایسے انسان کو اللہ کی نصرت کا کامل یقین ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴾
’’اور اللہ ان کی مدد ضرور کرتا ہے جو اللہ (کے دین) کی مدد کرتے ہیں۔ بے شک اللہ قوی اور غالب ہے۔‘‘ [1]
قرآن کو لمحہ بہ لمحہ نازل کرنے کی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور مومنین کا حوصلہ بلند ہوتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا﴾
’’ ہم نے قرآن کو وقفے وقفے سے نازل کیا ہے تا کہ آپ لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کے سنائیں اور ہم نے یہ قرآن آہستہ آہستہ نازل کیا ہے۔‘‘ [2]
قرآن پاک تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا گیا تا کہ اس پر خوب غور و خوض کیا جائے، اس کی تعلیمات پر عمل ہو سکے اور بشریت کے لیے یہ ایک منہج، دستور اور قائد بنے۔ انسان جب راہ حق سے دور ہو تو یہ اس کی راہنمائی کرے، اگر خطا کرے تو اسے آگاہ
[1] الحج 22 :40۔
[2] بنی اسرائیل 17 :106۔