کتاب: رجال القرآن 3 - صفحہ 36
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمھارے والد کو زندہ کیا اور ان سے آمنے سامنے گفتگو کی۔ اللہ تعالیٰ نے تمھارے ابو سے پوچھا: ’’میرے بندے! تمنا کر، میں پوری کروں گا۔‘‘ انھوں نے کہا: اے میرے رب! تو مجھے دنیا میں ایک بار اور بھیج دے، میں تیرے راستے میں دوبارہ شہید ہونا چاہتا ہوں۔رب تعالیٰ نے فرمایا: ’’میرا یہ فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے کہ دنیا میں دوبارہ کسی کو نہیں بھیجا جائے گا۔‘‘ [1]
تمھارے والد نے پھر کہا: اے میرے رب! پھر میرے پچھلوں کو میرا پیغام ہی پہنچا دیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیات نازل فرمائیں۔
اس دن سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہنے لگے۔ سفر وحضر میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہیں ہوتے تھے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے نماز خوف کے متعلق ایک حدیث مروی ہے، فرماتے ہیں: ہم ایک غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد (مدینہ سے مشرقی علاقہ، موجودہ الریاض شہر کے قرب و جوار) کی طرف گئے۔ واپسی پر دوپہر کو ایک وادی میں پہنچے جہاں ببول (کیکر) کے گھنے درخت تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پڑاؤ ڈالا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم درختوں کی گھنی ٹھنڈی چھاؤں میں بکھرگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک درخت کے ساتھ اپنی تلوار لٹکاکر استراحت فرمانے لگے۔
بنومحارب کا غورث نامی آدمی اپنی قوم غطفان اور محارب سے کہنے لگا: کیا میں تمھاری خاطر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم)کو قتل نہ کر آؤں؟ لوگوں نے کہا: ضرور! مگر تو انھیں کیسے قتل کرے گا؟ وہ کہنے لگا: میں دھوکے سے اچانک انھیں قتل کردوں گا۔
[1] مسند البزار:18؍165، ودلائل النبوۃ للبیھقی:3؍298۔