کتاب: رجال القرآن 3 - صفحہ 35
بِنِعْمَةٍ مِنَ اللّٰهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ’’ ان لوگوں کو مردہ خیال نہ کرو جو اللہ کے راستے میں مارے گئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں، انھیں ان کے رب کے ہاں رزق دیا جاتا ہے۔ جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیا، اس پر وہ خوش ہیں اور ان (مومنوں) کے بارے میں بھی خوشی محسوس کرتے ہیں جو ابھی تک ان سے نہیں ملے اور ان کے پیچھے (دنیا میں) رہ گئے ہیں کہ انھیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ اللہ کی نعمت اور اس کا فضل عطا ہونے پر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اور بے شک اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘[1] والد کی شہادت کے بعد جابر رضی اللہ عنہ انھیں اکثر یاد کرتے رہتے۔ انھیں دلی صدمہ ہوا تھا۔ ان کے دل میں باپ کی محبت کی وجہ سے ٹیسیں اٹھتی تھیں۔ ان کے ہونٹوں سے مسکراہٹ جاتی رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ عنہ کی جب یہ حالت دیکھی، جو کسی مسلمان کی نہیں ہونی چاہیے، تو فرمایا: ’’اے جابر! میں تمھیں شکستہ دل اور چپ چپ دیکھ رہا ہوں، اس کی کیا وجہ ہے؟ جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے ابو شہید ہوگئے ہیں۔ انھوں نے اپنے پیچھے سات بیٹیاں چھوڑی ہیں، علاوہ ازیں ان پر قرض بھی بہت تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں تمھیں خوشخبری نہ سناؤں کہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے والد سے کیسے انداز میں ملاقات کی ہے؟‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول! ضرور بتائیے!
[1] آل عمران 3: 169۔ 171۔