کتاب: رجال القرآن 3 - صفحہ 26
نوجوان جابر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کا شرف اس وقت حاصل کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصار سے مصافحہ فرمارہے تھے اور انھیں خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ جابر رضی اللہ عنہ کے دل میں بھی نور ایمان جاگزیں ہوگیا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے دل میں جگہ بناچکی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری صورت ان کے ذہن میں ثبت ہوچکی تھی جو مٹائے نہ مٹتی تھی۔
ملاقات ختم ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انصار کے درمیان بیعت مکمل ہوگئی جوآگے چل کر اس دعوتِ حق کی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہونے والی تھی۔ یہ انصار اپنے مہاجر بھائیوں کے ساتھ اس دعوت کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے والے تھے۔ انھیں پوری انسانیت کو توحید کی دعوت دینی تھی اور غیر اللہ کی پوجا سے روکنا تھا۔ وہ خود بھی توحید والے بن گئے تھے اور انھیں دوسروں کو بھی توحید پرست بنانا تھا، اس لیے کہ انسان سب برابر ہیں، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقویٰ اور عملِ صالح کے۔
جابر رضی اللہ عنہ کا اپنے والد گرامی سے ایک مکالمہ
اب یہ قافلہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات اور بیعت کا شرف حاصل کرکے مدینہ کی طرف واپس چل دیا۔ راستے میں نوجوان جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے سوالات پوچھنے شروع کر دیے:
جابر رضی اللہ عنہ : ابوجان! جنھوں نے سب آدمیوں سے مصافحہ کیا، جن کا روشن چہرہ، سچی گفتگو اور عمدہ خوشبو تھی، وہ کون تھے؟
والد: بیٹا! یہی اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔