کتاب: رجال القرآن 3 - صفحہ 25
مشقت برداشت نہ کرسکوں۔ بچے نے جب والد کے حکم کو اہمیت نہ دی اور والد کے ساتھ جانے پر اصرار کیا تو والد کو اس کی خواہش کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور اسے بھی ساتھ لے جانا پڑا۔
قافلہ سوئے مکہ چل پڑا اور منزلوں پہ منزلیں طے کرتا چلا گیا۔ یہ کوئی تجارتی قافلہ نہیں تھا اورنہ اس میں ڈکیت اور قزاق تھے جن کا مقصد غارت گری اور زمین اور فصلوں پر ناحق قبضہ ہوتا ہے، اور نہ ہی یہ قافلہ کسی فوری منافع کے حصول کے لیے روانہ ہوا تھا جیسے کوئی شادی کا قافلہ ہو جو باجوں گاجوں کے شور میں دلہن لینے جارہے ہوتے ہیں۔
سچی بات ہے کہ یہ قافلہ ایک نئی قسم کا تھا۔ یہ انصار کے مردوں اورعورتوں کی ایک جماعت تھی۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے فرستادہ نبی کی دعوت سن لی تھی۔ ان کے سینے قرآن کریم کی بعض آیات کو محفوظ کیے ہوئے تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ انھیں پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ ان کی تبلیغ سے وہ لوگ اسلام قبول کرچکے تھے اور اپنے معبودان باطلہ سے کنارہ کش ہوچکے تھے۔ وہ اس دن کے شدت سے منتظر تھے جس دن یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کریں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات اور بیعت:
قافلہ چلتا رہا حتی کہ مکہ کی بالائی بستیاں اور پہاڑی چوٹیاں نظر آنے لگیں۔ یہاں انھوں نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے ایک قاصد روانہ کیا۔ قاصد نے واپس آکر خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات فلاں جگہ ان سے ملاقات کریں گے۔ بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ملاقات کا وقت آن پہنچا۔