کتاب: رجال القرآن 3 - صفحہ 228
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں فرمایا کرتے تھے: میری نئی نئی شادی ہوئی ہو اور میری بیوی جس سے مجھے محبت ہو، وہ میرے پاس ہو یا مجھے بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری سنائی جائے تو یہ چیزیں مجھے اس انتہائی سرد رات سے زیادہ محبوب نہیں جس میں مجاہدین دشمن سے برسرپیکار ہوں، لہٰذا تم بھی جہاد ہی کو اپناؤ۔[1] اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایسے ایمان والوں کا وصف بیان فرمایا ہے: ﴿ كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ﴾ ’’وہ رات کو بہت ہی تھوڑا سوتے تھے۔‘‘ [2] بے شک وہ تو ہمیشہ سرحدوں کی حفاظت میں رہتے ہیں۔ راتوں کو بھی بیدار رہتے ہیں۔ وہ اپنے رب کی یاد سے لمحہ بھر بھی غافل نہیں ہوتے۔ وہ اپنے اللہ کے حکموں کی ایک بار بھی سرتابی نہیں کرتے، نیز وہ اپنے آپ کو ہوش و حواس میں رکھتے ہیں، دین اور وطن کے دشمنوں سے آنکھیں بند نہیں رکھتے۔ انھوں نے اپنے رب کا یہ اعلان سن رکھا ہے: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ، تُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ، يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ، وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِنَ اللّٰهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ’’ اے ایمان والو! کیا میں تمھیں ایسی تجارت بتاؤں جو تمھیں دردناک عذاب
[1] عبقریۃ خالد للأستاذ عباس محمود العقاد، والبدایۃ والنہایۃ:7؍130، و مختصر تاریخ دمشق:3؍37۔ [2] الذّٰریٰت 17:51۔