کتاب: رجال القرآن 3 - صفحہ 225
’’اور (اے نبی!)لوگوں میں کوئی تو ایسا ہے کہ آپ کو اس کی بات دنیا کی زندگی میں بہت بھلی لگتی ہے اور جو کچھ اس کے دل میں ہے اس پر وہ اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہے، حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے۔ اور جب وہ پلٹتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے کھیتوں اور نسل کو تباہ کرے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ [1] سریہ عاصم، یعنی حادثہ رجیع کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا: ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ﴾ ’’ اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو (اس کے ہاتھ) بیچ ڈالتا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر بہت شفیق ہے۔‘‘ [2] امام ابوداود رحمہ اللہ نے یہ قصہ اختصار سے بیان کیا ہے۔ مرثد بن ابومرثد غنوی رحمہ اللہ مکہ سے مسلمان قیدی اٹھایا کرتے تھے۔ مکہ میں ایک عناق نامی زانیہ عورت تھی جو مرثد رضی اللہ عنہ کی دوست رہ چکی تھی۔ مرثد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! کیا میں عناق سے نکاح کرسکتا ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے حتی کہ آیت نازل ہوگئی: ﴿الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً ﴾ ’’زانیہ عورت سے نکاح نہیں کرتا مگر زانی یا مشرک مردہی۔‘‘ [3]
[1] الدر المنثور في التفسیر، وتفسیر الطبري، البقرۃ 205,204:2۔ [2] الدر المنثور في التفسیر، و تفسیر الطبري، البقرۃ 207:2۔ [3] النور 3:24۔