کتاب: رجال القرآن 3 - صفحہ 20
پوری ہوجاتی۔)
معاویہ رضی اللہ عنہ : اللہ کی قسم! علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد آپ کی ان سے وفاداری، ان کی زندگی میں ان سے محبت کی نسبت مجھے زیادہ پسند ہے۔ آپ کی کوئی ضرورت ہو تو بتائیں۔
زرقاء: امیر المؤمنین! میں نے قسم کھائی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے بعد کسی سے سوال نہیں کروں گی۔
معاویہ رضی اللہ عنہ : لوگوں نے مجھے آپ کی قتل کا مشورہ دیا ہے۔
زرقاء: مشورہ دینے والا بڑا کمینہ ہے۔ اگر آپ نے اس کی بات مان لی تو آپ بھی شریکِ جرم قرار پائیں گے۔
معاویہ رضی اللہ عنہ : ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے بلکہ آپ سے درگزر کرتے ہیں۔
زرقاء: اے امیر المؤمنین! یہ آپ کا کرم ہے۔ آپ تو اس صفت کے مالک ہیں کہ قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردیتے ہیں۔ برائی کرنے والے سے درگزر کرتے ہیں اور بن مانگے عطا کرتے ہیں۔
معاویہ رضی اللہ عنہ نے انھیں خلعت سے نوازا اور اچھی خاصی جاگیر عطا کی۔[1]
ہم اللہ کے حضور دست بدعاء ہیں کہ وہ امت اسلامیہ کو دین و دنیا کی بھلائیاں نصیب فرمائے۔ آمین!
إنہ سمیعٌ قریبٌ مُجِیبُ الدعاء
د: عبد الرحمن عمیرہ
[1] مختصر تاریخ دمشق:3؍250۔