کتاب: رجال القرآن 3 - صفحہ 19
جاسکتا اور لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے۔ اسی طرح اہل حق اور اہل باطل برابر نہیں ہوسکتے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوُونَ﴾
’’کیا پھر مومن ایسے ہوسکتا ہے جیسے فاسق، وہ (کبھی) برابر نہیں ہوسکتے۔‘‘ [1]
(زرقاء نے اس ذو معنی کلام میں علی رضی اللہ عنہ کو سورج، چاند اور گھوڑے سے تشبیہ دی ہے، اسی طرح انھیں حق والا گردانا اور اس کے برعکس معاویہ رضی اللہ عنہ کو شمار کیا تھا۔)
معاویہ رضی اللہ عنہ زرقاء کی باتیں اسے یاد دلاکر کہنے لگے: آپ کہا کرتی تھیں: لڑائی، لڑائی…… یعنی اب علی اور معاویہ(رضی اللہ عنہما)کے درمیان جنگ ہوکے رہے گی، لہٰذا تم لوگ صبر کرنا، صبر کرنا…… (اور آپ لوگوں کو لڑائی پر ابھارتے ہوئے کہا کرتی تھیں:) عورتوں کاخضاب مہندی ہے جبکہ مردوں کا خضاب خون ہے۔ اے زرقاء! بتاؤ کیا آپ اسی طرح لوگوں کو ابھارا نہیں کرتی تھیں؟
زرقاء: ہاں معاملہ کچھ ایسا ہی تھا۔
معاویہ رضی اللہ عنہ : علی رضی اللہ عنہ نے جو خون بہایا آپ اس میں شریک ہیں۔
زرقاء: امیر المؤمنین! اللہ تعالیٰ آپ کے چہرے کی رونق بڑھائے اور آپ کو سلامتی عطا کرے۔ آپ جیسوں کو خیر کی بشارات ملتی رہیں اور آپ کے دوست خوش ہوتے رہیں۔
معاویہ رضی اللہ عنہ : کیا آپ اس سے خوش تھیں؟
زرقاء: اللہ کی قسم! مجھے خوشی تو ہوئی لیکن یہ میرے نصیبے میں کہاں! (کاش! یہ خوشی بھی
[1] السجدۃ 18 :32۔