کتاب: رجال القرآن 3 - صفحہ 18
کی روشنی پھیلا دی اور توحید کا علَم ہر سو لہرادیا۔
میں نے امت مسلمہ میں ان فتنوں کو ہوا دینے والے اسباب کی جو چھان پھٹک کی ہے، ان میں ایک یہ واقعہ دل کو لگتا ہے۔ یہ ایک مکالمہ ہے جو زرقاء بنت عدی اور حضرت معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کے درمیان ہوا۔ زرقاء کوفہ کے لشکر کو شام کے لشکر کے خلاف بھڑکاتی تھی۔ ایک مرتبہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں اسے عزت و تکریم کے ساتھ دمشق لانے کا حکم دیا۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور زرقاء کے درمیان مکالمہ:
جب زرقاء معاویہ رضی اللہ عنہ کے دربار میں پہنچی تو انھوں نے پوچھا: خالہ جان! آپ کیسی ہیں اورسفر کیسا رہا؟
زرقاء: سفر بہت اچھا رہا، راستے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔
معاویہ رضی اللہ عنہ : آپ لوگوں کو ہمارے خلاف برانگیختہ کیوں کرتی تھیں؟
زرقاء: امیرالمؤمنین! عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے۔ علی رضی اللہ عنہ بھی قاتلانہ حملے میں شہید ہوگئے۔ زمانہ بھی تغیر پذیر ہے۔ جو غور کرے گا اسے بصیرت حاصل ہوجائے گی اور ایک واقعہ دوسرے کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔
معاویہ رضی اللہ عنہ : آپ جو باتیں کہا کرتی تھیں، وہ آپ کو یاد ہیں؟
زرقاء: نہیں!
معاویہ رضی اللہ عنہ : آپ کا باپ بہت اچھا آدمی تھا۔ میں نے خود آپ سے سنا ہے کہ آپ اس قسم کی ذو معنی باتیں کیا کرتی تھیں: لوگو! سورج کے سامنے دیا نہیں جلتا، چاند کی موجودگی میں ستارے روشنی نہیں دیتے، بے شک خچر گھوڑے سے سبقت نہیں لے