کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 94
’’سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ اپنی طبعی موت فوت ہوئے اور شہادت سے سرفراز نہیں ہوئے تو میرے دل میں ان کے بارے میں میرے جذبات کافی حد تک تبدیل ہوگئے۔ میں نے اپنے دل میں کہا: ’’انھیں دیکھو تو ہم سب سے زیادہ دنیا سے بے رغبت تھے لیکن موت بستر پر آئی ہے اور شہید نہیں ہوئے۔‘‘ عثمان رضی اللہ عنہ کی یہ قدر و منزلت میرے دل ہی میں رہی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے۔ تب میں نے اپنے آپ سے کہا: تیری بربادی ہو! افضل ترین لوگ بھی تو بستر پر فوت ہوتے ہیں، پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی طبعی موت فوت ہوئے تو میں نے پھر کہا: تجھ پر افسوس ہو! تجھ سے بہتر لوگ بھی بستر پر فوت ہوتے ہیں، چنانچہ میرے دل میں عثمان رضی اللہ عنہ کا وہی مقام پیدا ہوگیا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔‘‘ [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فوت ہونے والے صحابہ کے لیے قبرستان کی جگہ تلاش کررہے تھے، اس مقصد کے لیے آپ ایک مرتبہ مدینہ اور اس کے اطراف و اکناف میں گئے۔ ایک جگہ رک کر آپ نے فرمایا: ’’مجھے اس جگہ کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ آپ نے بقیع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔‘‘ مذکورہ قبرستان میں سب سے پہلے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو دفن کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قبر پر سر کے برابر ایک پتھر رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’یہ ہمارے پیش رو ہیں۔‘‘ چنانچہ بعد میں جو شخص بھی فوت ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا جاتا کہ اسے
[1] الطبقات الکبریٰ:3؍399۔