کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 93
کا تقرب حاصل نہ کیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کیے ہیں اور اپنی کتاب میں بیان فرمائے ہیں۔ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر کے بعد اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ سیدہ ام العلاء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہمارے گھر میں بیمار ہوئے، ہم نے ان کی دیکھ بھال کی اور جب فوت ہوگئے تو ہم نے کفن پہنایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے کہا: ’’ابوالسائب! تمھیں جنت مبارک ہو۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تجھے کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس طرح عزت افزائی فرمائی ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! میں نہیں جانتی، اللہ کے رسول! آپ بتایے کہ ان کے ساتھ کیسا سلوک ہوا ہے؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ فوت ہوچکے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ بھلائی والا معاملہ فرمائیں گے۔ میں اللہ کا رسول ہوں لیکن اس کے باوجود یہ نہیں جانتا کہ کل قیامت کے روز میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔‘‘ فرمانے لگیں: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! کیا آپ بھی؟ اللہ کی قسم! آج کے بعد میں کسی کے بارے میں ایسا نہیں کہوں گی۔‘‘ وہ مزید فرماتی ہیں: ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تو مجھے دکھ ہوا۔ جب میں رات کو سوئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک جاری چشمہ ہے۔ میں نے یہ خواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ اس کا عمل ہے۔‘‘ [1] سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
[1] الطبقات الکبرٰی:3؍398، و صحیح البخاري، حدیث:3929۔