کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 89
تیری یہ آنکھ اس چوٹ سے محفوظ تھی اور بلاشبہ تو ایک مضبوط پناہ گاہ میں تھا۔‘‘ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’واللہ! میری دوسری آنکھ بھی اللہ کے راستے میں چوٹ برداشت کرنے کی خواہش مند ہے۔ اے ابو عبد شمس! میں اس ذات کی پناہ میں ہوں جو تجھ سے زیادہ طاقت ور اور قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘ ولید نے دوبارہ اپنی پناہ کی پیش کش کی جسے عثمان رضی اللہ عنہ نے ٹھکرا دیا۔‘‘ [1] ولید چاہے ہزار بار آفر کرتا، وہ پھر بھی ٹھکرا دیتے کیونکہ وہ جان چکے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہیں جو موت و حیات کا مالک ہے اور رزق و اجل بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اور یہ لوگ! یہ تو کسی چیز کے مالک ہیں نہ انھیں کوئی اختیار حاصل ہے۔ یہ تو خود اپنی جان کے مالک بھی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سچ کہا ہے: ﴿ يَاأَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللّٰهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ ﴾ ’’اے لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے، لہٰذا تم اسے غور سے سنو، بے شک جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی ہرگز نہیں پیدا کر سکتے اگرچہ وہ (سارے ہی) اس کے لیے جمع ہو جائیں اور اگر ان سے مکھی کچھ چھین لے تو وہ اسے بھی اس سے چھڑا نہیں سکتے، طالب و مطلوب (عابد ومعبود دونوں) کمزور ہیں۔‘‘ [2] سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ بے خوف پھرتے تھے اور کفار کے سامنے ایسی باتیں کرتے تھے جن سے ان کو غصہ آتا اور ان کے سینے میں آگ بھڑک اٹھتی۔ آپ ان کے سامنے کلمۂ توحید کو بلند کرتے اور حق کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: 1؍391۔ [2] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:1؍391، والحج 22 :73۔