کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 88
گلیوں اور بازاروں میں گھومنے لگے، گویا وہ مشرکین کو بھڑکارہے تھے اور انھیں چیلنج کررہے تھے ۔ اچانک ان کی نظر لوگوں کے ایک جمگھٹے پر پڑی جو لبید بن ربیعہ شاعر کے گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے اور وہ انھیں اپنے اشعار پڑھ پڑھ سنارہا تھا۔ عثمان رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور بڑے غور سے سننے لگے۔ اشعار پڑھتے ہوئے لبید نے یہ الفاظ کہے: اَلَا کُلُّ شَیْئٍ مَّا خَلَا اللّٰہَ بَاطِلٗ ’’خبردار! اللہ کے علاوہ ہر چیز باطل ہے۔‘‘ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’تو نے سچی بات کہی ہے۔‘‘ لبید نے اگلا مصرعہ پڑھا: وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَّا مَحَالَۃَ زَائِلٗ ’’اور ہر نعمت نے ایک دن ختم ہو جانا ہے۔‘‘ عثمان رضی اللہ عنہ نے ٹوکا: نہیں تو نے غلط کہاہے۔ جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہوں گی۔ لبید نے کہا: ’’اے قریش کی جماعت! اللہ کی قسم! آج سے پہلے کبھی تمھارے مہمان کو رسوا نہیں کیا گیا لیکن اب یہ کیسے ہوا؟‘‘ ان میں سے ایک آدمی نے کہا: ’’یہ اکیلا بے وقوف نہیں، اس کے ساتھ اور بھی ہیں جو ہمارے دین کو چھوڑ چکے ہیں۔ آپ اس کی باتوں کو محسوس نہ کرنا۔‘‘ عثمان رضی اللہ عنہ سے صبر نہ ہوسکا اور انھوں نے اسے بھر پور جواب دیا۔ معاملہ بڑھ گیا، چنانچہ لڑائی میں اس آدمی نے عثمان رضی اللہ عنہ کی آنکھ پر طمانچہ مارا تو عثمان رضی اللہ عنہ کی آنکھ سوج گئی۔ ولید عثمان رضی اللہ عنہ کو قریب سے بیٹھا دیکھ رہا تھا، اس نے کہا: ’’اے میرے بھتیجے!