کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 87
پہنچے۔ وہاں ولید نے کہا: اس نے سچ کہا۔ یہ واقعی مجھے میری پناہ واپس لوٹانے آیا ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اس نے بھی سچ کہا ہے۔ میں نے اسے وفادار اور بہترین پناہ دینے والا پایا ہے لیکن اب میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی پناہ میں نہ رہوں، لہٰذا میں اب اس کی پناہ اسے واپس کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر عثمان رضی اللہ عنہ واپس لوٹ آئے۔[1] یہ تھا عثمان رضی اللہ عنہ کا کردار۔ یقیناً آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مصداق ہیں: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔‘‘ [2] لہٰذا جب مسلمانوں کو کوئی اذیت پہنچے تو اس میں سب مسلمانوں کو شامل ہونا چاہیے۔ یہی وہ تعاون اور الفت و محبت ہے جو اسلام کے ہر اول دستے کو ممتاز کرتی ہے۔ یہ الفت و تعاون ہر میدان میں نمایاں تھی۔ جنگ ہوتی تو تلوار کا وار اپنے سینے پر کھا لیتے اور اپنے بھائی کی جان بچاتے۔ صفوں میں آگے آگے ہوتے تاکہ اپنے پچھلوں کو بچا سکیں۔ انتہائی بھوک میں بھی اپنے پیٹ کی آگ نہ بھجاتے بلکہ روٹی کے وہ ٹکڑے اپنے اس بھائی کو دیتے جو ان سے زیادہ بھوکا ہوتا۔ ان کے بارے میں شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے: ’’جب وہ زرہ پوش ہو کر میدان جنگ میں اترتے ہیں تو قلعوں کے قلعے تباہ کر ڈالتے ہیں اور جب شام ہوتی ہے تو آپ انھیں اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز پاتے ہیں۔‘‘ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے ولید کا امان واپس لوٹا دیا اور بے خوف وہراس مکہ کی
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:1؍355۔ [2] صحیح البخاري، حدیث: 13۔