کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 86
ہاتھ دھو بیٹھا ہے جن کی تو پناہ لیتا تھا۔ عنقریب تجھے پتا چل جائے گا جب تجھ پر کوئی مصیبت آئے گی اور تجھے کمینے لوگ تیرے ہی کرتوتوں کے سپرد کرکے بے یارو مددگار چھوڑ کر چلے جائیں گے۔‘‘[1] اسی لیے جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مکہ میں داخل ہونا چاہا تو ولید بن مغیرہ کا امان لینے پر مجبور ہوگئے اور پھر ولید کی پناہ ہی میں وہ کافی عرصہ امن و سکون کے ساتھ مکہ میں رہے۔ کسی نے کوئی تکلیف نہیں پہنچائی اور نہ ہی ان کی طرف میلی نگاہ کے ساتھ دیکھا حالانکہ دوسرے مسلمان جو حبشہ سے واپس آئے تھے انھیں طرح طرح کی اذیتوں سے دو چار ہونا پڑا چنانچہ جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے یہ صورت حال دیکھی تو انھیں اچھا نہ لگا، کہنے لگے: ’’واللہ! میری صبح و شام تو مشرک آدمی کی پناہ کی وجہ سے محفوظ ہو اور میرے دوسرے بھائی آزمائش اور تکلیف میں مبتلا ہوں۔ یہ تو میرے لیے بڑے عیب کی بات ہے۔‘‘ عثمان رضی اللہ عنہ ولید بن مغیرہ کے پاس گئے اور کہا: ’’اے عبد شمس! تیرا ذمہ پورا ہوگیا۔ اب میں تیری پناہ واپس کرتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا: میرے بھتیجے! آخر کیوں؟ تجھے کسی نے تکلیف دی ہے یا تیری عزت پامال کی ہے؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں، میں اب صرف اپنے اللہ کی پناہ پر راضی رہنا چاہتا ہوں اور اس کے سوا کسی کی پناہ میں نہیں آنا چاہتا۔‘‘ اس پر ولید نے کہا: تجھے مسجد حرام میں جا کر لوگوں کے سامنے، جس طرح میں نے تجھے پناہ میں لیا تھا اس طرح، میری پناہ واپس کرنا ہوگی۔ دونوں مسجد حرام میں
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:1؍355۔