کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 85
لے آئے، چنانچہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ سے اپنی اولاد، بیویوں، خاندان اور وطن سے بڑھ کر محبت کی تھی حتی کہ جب مشرکین نے مومنین کی جماعت کا جینا دو بھر کر دیا تو انھوں نے ہر چیز کو چھوڑ دیا اور اپنا دین بچاتے ہوئے حبشہ کو کوچ کر گئے۔ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ بھی انھی لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے خالصتاً اپنے دین کی حفاظت کے لیے گھر بار چھوڑا تھا اور پھر کافی عرصہ مہاجرین کے ساتھ ارض حبشہ میں نجاشی کی مہمان نوازی میں رہے۔ لیکن جب مشرکین نے یہ اعلان کیا کہ ہم اس نئی دعوت سے مصالحت کرنے کے لیے تیار ہیں اور انھوں نے مسلمانوں کے درپے ہونا چھوڑ دیا تو مہاجرین حبشہ اپنے آبائی شہر مکہ واپس آگئے۔ تاہم وہ اپنی واپسی پر اس وقت نہایت ہی نادم ہوئے جب انھیں اس حقیقت کا علم ہوا کہ یہ سب قریش کی چال تھی اور وہ اس کے ذریعے سے مہاجرین حبشہ کو، جنہوں نے اپنے دین کی خاطر اپنے وطن کو خیر باد کہا تھا، دوبارہ قید کرکے انھیں تختہ مشق بنانا چاہتے تھے اور دوبارہ بتوں کی عبادت کرنے پر مجبور کرنا چاہتے تھے۔ اسی کے بارے میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے چند اشعار کہے تھے جن میں انھوں نے امیہ بن خلف کو ڈانٹ پلائی جو انھیں اذیتیں پہنچایا کرتے تھا۔ آپ نے امیہ بن خلف کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’کیا تو ظلم کرتے ہوئے مجھے وادی مکہ سے نکال رہا ہے اور مجھے سفید محل میں رہنے پر مجبور کر کے گالیاں بک رہا ہے ۔ تو تیروں کو پر لگاتا ہے اور تجھے یہ تیرا عمل موافق نہ آئے گا۔ تو جو تیر بناتا ہے اس کے سارے پر تیرے ہی لیے ہیں۔ تو نے ایسی قوم سے لڑائی مول لی ہے جو عزت دار ہیں اور ایسی قوم سے