کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 84
اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’کیا واقعی آپ نے یہ سب کچھ دیکھا ہے؟‘‘ عثمان :جی ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’میرے پاس آپ کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کا پیامبر آیا تھا۔‘‘ عثمان: ’’اللہ کا پیامبر؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’جی ہاں، اللہ تعالیٰ کا قاصد۔‘‘ عثمان: ’’اس نے آپ سے کیا کہا ہے؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’اس نے آکر مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام سنایا ہے: ﴿ إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔‘‘[1] سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پس اس وقت سے میرے دل میں ایمان بھر گیا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہوگئی۔ واقعتا انھوں نے سچی محبت کی۔ ان کے دل میں آپ کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ جسم کا ہر حصہ آپ کی محبت سے سرشار تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہستی ہیں جن کے ذریعے سے انھیں ہدایت نصیب ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں صراط مستقیم سے متعارف کرایا۔ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے ایمان کی روشنی میں
[1] الطبقات الکبریٰ:1؍174، النحل16 :90۔