کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 75
چیز کی زیادتی جماعتوں اور افراد کے لیے سب سے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ وقت کی زیادتی انسان کو بور کر دیتی ہے اور جب کئی کئی دن انسان کو فراغت مل جائے تو انسان کی جان پر بنی ہوتی ہے۔ شہوت کی زیادتی جبکہ اس کے لیے کوئی شرعی و دینی ضابطہ نہ ہو، تباہ کن بلا کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ انسان کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ دوسروں کی عزت و ناموس سے کھیلے اور ایسے شخص کی زندگی فسق و فجور پر مبنی ہوتی ہے۔ ضرورت سے زائد مال انسان کے لیے ایک بوجھ ہوتا ہے، چاہے اسے اس کا احساس نہ ہو۔ یہ ایسے کہ جب وہ اپنے اضافی اور زائد مال کی حفاظت اور حساب کتاب میں پڑا ہوتا ہے تو اس وقت وہ پریشانی میں ہوتا ہے اور یہی اس کے لیے بوجھ ہے۔ بسا اوقات اسی مال کی فراوانی اور اس سے محبت انسان کے لیے دین و دنیا کی تباہی اور بربادی کا باعث بنتی ہے۔ آج ہمارے اس پر فتن دور میں دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس بات کی واضح دلیل ہے۔ اسلام کی دعوت اعتدال، میانہ روی اور قناعت پر مبنی ہے۔ اسلام فرد سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے اضافی مال، وقت، جنس اورکھانے وغیرہ کے استعمال میں اسراف اور تبذیر سے دور رہے۔ بسیار خوری(Over eating)صحت کے لیے مضر ہے۔ جسم کا اندرونی نظام گڑبڑ ہو جاتا ہے اور انسان سست اور مدہوش نظر آتا ہے۔ عبادات میں زیادتی تعمیر کائنات سے دور بھاگنے کے مترادف ہے اور یوں بھی انسان اس طرح سے اللہ کی رضا حاصل نہیں کر سکتا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان