کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 64
ہیں جنھوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اُسے سچا کر دکھایا، بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقع کے) منتظر ہیں اور انھوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی تاکہ اللہ تعالیٰ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے اور اگر چاہے تو منافقوں کو سزا دے یا ان کی توبہ قبول فرمائے، اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا بہت ہی مہربان ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کو غصے میں بھرے ہوئے ہی (نامراد) لوٹا دیا انھوں نے کوئی فائدہ نہیں پایا اور اس جنگ میں اللہ تعالیٰ خود ہی مومنوں کو کافی ہو گیا۔ اوراللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا، غالب ہے۔‘‘ [1]
صہیب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو یحییٰ تھی اور آپ اپنی نسبت عربوں کی طرف کرتے تھے۔ آپ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ مہمان نوازی بہت کیا کرتے تھے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان پر اعتراض کرتے ہوئے فرمایا:
صہیب! تم اپنے آپ کو ابو یحییٰ کہلواتے ہو حالانکہ تمھارا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ تم کہتے ہو کہ تم عربی ہو جبکہ تم ایک رومی ہو۔ تم کھانا بہت کھلاتے ہو اور یہ فضول خرچی ہے۔
صہیب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
’’آپ کا یہ کہنا کہ میں ابو یحییٰ کیوں کہلواتا ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود میری یہ کنیت رکھی تھی۔ یہ اعتراض کہ میں اپنی نسبت عربوں کی طرف کیوں کرتا ہوں تو میں نمر بن قاسط قبیلے کا ایک فرد ہوں جو موصل میں رہتا ہے۔ جب میں چھوٹا تھا تو رومی مجھے قید کر کے لے گئے تھے۔ میں اس لیے زیادہ کھانا کھلاتا ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] الأحزاب 33: 25۔22۔