کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 60
کھجوریں کھا رہا ہے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کھجوریں کھا رہا ہے جبکہ تیری آنکھ دکھتی ہے؟‘‘
صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنی درست آنکھ کے کنارے سے کھا رہا ہوں۔
یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا پڑے۔
صہیب رضی اللہ عنہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گلے شکوے کرنے لگے: آپ نے تو مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے ساتھ لے کے جائیں گے لیکن آپ مجھے اکیلا چھوڑ کر آ گئے۔
یہی شکوہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا اور کہا کہ آپ کے جانے کے بعد قریش نے مجھے قید کر دیا تھا۔ اب میں اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو اپنے مال کے عوض خرید کے لایا ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((رَبِحَ الْبَیْعُ، رَبِحَ الْبَیْعُ))
’’صہیب! تو نے تو نفع کمایا ہے، یہ تجارت فائدے میں رہی ہے۔‘‘ [1]
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صہیب اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کے مابین مواخات قائم کی۔ وہ معاذ جن کے بارے میں فرمانِ نبوی ہے:
((أَعْلَمُھُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ))
’’حلال و حرام کا علم سب سے زیادہ معاذ رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے۔‘‘ [2]
اور جب یمن کی طرف روانہ فرمایا تو پوچھا:
’’فیصلے کیسے نمٹاؤ گے؟ ‘‘
معاذ رضی اللہ عنہ : ’’اللہ کی کتاب سامنے رکھوں گا۔‘‘
[1] الطبقات الکبرٰی: 3؍228۔
[2] المستدرک للحاکم، حدیث: 5784۔