کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 59
لٹکائی اور مدینہ کی طرف رخت سفر باندھا، مکہ کے جس راستے سے گزرتے کفر کے سردار انھیں روکنے کی کوشش کرتے۔
سعید بن مسیب سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کے واقعۂ ہجرت کے راوی ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
’’سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ ہجرت کی غرض سے مدینہ کو روانہ ہوئے تو قریش کے کچھ لوگ آپ کے پیچھے ہو لیے۔ جب آپ نے انھیں دیکھا تو اپنی سواری سے اترے، تر کش سے تیر نکالے اور بآواز بلند کہا: ’’او قریشیو! تم خوب جانتے ہو کہ میں تم سب سے بڑھ کر ماہر تیر انداز ہوں۔ اللہ کی قسم! تم اس وقت تک مجھ تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میرے ترکش میں ایک بھی تیر موجود ہے، پھر میں تم پر اپنی تلوار آزماؤں گا۔ اب تم جو چاہو کرو۔ اور اگر تم چاہو تو میں تمھیں اس شرط پر اپنے مال کا پتا بتاتا ہوں کہ تم میرا راستہ چھوڑ دو گے۔
انھوں نے کہا: ہاں، ٹھیک ہے، چنانچہ صہیب رضی اللہ عنہ نے انھیں اپنے مال کا پتا بتا دیا،[1] پھر چلتے رہے حتی کہ مدینہ میں داخل ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں تشریف فرما تھے۔ آپ کے ساتھ آپ کے وزیر ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ تازہ کھجوریں ان کے سامنے پڑی تھیں جو کہ کلثوم بن ہدم لائے تھے۔
صہیب رضی اللہ عنہ راستے میں آشوب چشم میں مبتلا ہو گئے تھے اور انھیں شدید بھوک بھی لگی ہوئی تھی۔ آتے ہی کھجوریں کھانے لگے۔ یہ دیکھتے ہوئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خوش طبعی کا موقع مل گیا۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر کہا:
’’اے اللہ کے رسول! صہیب کو دیکھیے، اس کی آنکھ بھی دکھتی ہے، وہ پھر بھی
[1] الطبقات الکبرٰی:3؍227۔