کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 58
چاہتے ہیں؟ تو انھوں نے مجھ سے پوچھا: آپ کس غرض سے یہاں آئے ہیں؟
میں نے جواب دیا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سننے آیا ہوں۔
انھوں نے کہا: میرا مقصد بھی یہی ہے۔
فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ نے ہمیں اسلام کی دعوت دی تو ہم دونوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ہم وہاں ایک دن ٹھہرے اور جب شام ہوئی تو لوگوں سے چھپتے چھپاتے باہر نکلے۔‘‘[1]
لیکن نور ایمان کہاں چھپا رہ سکتا ہے۔ اور کلمۂ توحید تو ایک موحد کی پہچان بن جاتا ہے۔ قریش ان لوگوں کو برداشت نہ کر سکے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرتے تھے اور ان کے بتوں اور ان کے عقیدوں کا کھلا مذاق اڑاتے تھے۔ کفار مکہ نے ان مومنین کا جینا دو بھر کر دیا۔ طرح طرح کی تکلیفیں دیتے اور کوئی ایسا حربہ نہ چھوڑتے جس کے ذریعے سے وہ مسلمانوں کو فتنے میں مبتلا کر سکتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی تکلیفوں سے محفوظ نہ تھے۔
جب حالات نا قابل برداشت ہو گئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہyکو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی۔ پے در پے مہاجرین کے قافلے مدینہ روانہ ہوتے گئے حتی کہ صہیب رضی اللہ عنہ کو محسوس ہوا کہ وہ مکہ میں اکیلے کلمۂ توحید کے حامل رہ گئے ہیں تو انھوں نے بھی ہجرت کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔
کچھ ہی دنوں میں انھوں نے سواری کا بندوبست کر لیا۔ تیر لیے، تلوار گلے میں
[1] الطبقات الکبرٰی:3؍227۔