کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 57
’’تو آخر یہ میں کیا سن اور دیکھ رہا ہوں۔‘‘ یہ خیالات ان کے دل میں تھے اور وہ چلتے ہوئے قریش کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے تو وہ یہ باتیں کر رہے تھے:
’’وہ ایک نئی روشنی اور نور ہے جو آسمان کا زمین کے ساتھ تعلق قائم رکھتا ہے۔‘‘
’’یہ وہ امیدِ منتظر ہیں جو پریشان اور کمزور لوگ اور نور ایمان کے متلاشی لگائے ہوئے تھے۔‘‘
’’یہ وہ روشنی ہے جو کائنات میں پھیلے گی اور کفر و شرک کے اندھیرے چھٹ جائیں گے۔‘‘
’’وہ آخری رسول ہیں جن کا کب سے انتظار ہو رہا تھا۔‘‘
’’یہ زمین میں عدل و انصاف اور سلامتی کا باعث بنیں گے۔‘‘
یہ توحید و رسالت کے وہ کلمات تھے جنھیں اپنانے کی دعوت رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے ارد گرد اور صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر دی تھی اور جس کی وجہ سے بت پرست چیخ اٹھے تھے اور انھوں نے مخالفت اور بہتان طرازی شروع کر دی تھی۔
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کے دل میں اس نئے دین کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو گیا کیونکہ یہ دین قریش کی باتوں اور مجلسوں کا محور بن چکا تھا، مکہ کے ہر گھر میں ہر فرد کی گفتگو بس یہی تھی۔
صہیب رضی اللہ عنہ مزید صبر نہ کر سکے اور انھوں نے اس دین کے داعی کے بارے میں کسی سے دریافت کیا تو انھیں دار ارقم کی طرف راہنمائی دی گئی۔
سیدنا عمار بن یاسر صہیب رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا واقعہ بیان کرتے ہیں:
’’صہیب رضی اللہ عنہ سے دار ارقم کے دروازے کے پاس میری ملاقات ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دار ارقم میں تشریف فرما تھے۔ میں نے ان سے پوچھا: آپ یہاں کیا