کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 49
حفاظت کے لیے نہ اٹھتا اور نہ ہی کوئی مضبوط رائے قائم ہو پاتی۔ وہ دوبارہ اسی تاریک دنیا میں چلے گئے اور دوسرے ممالک انھیں دین سے برگشتہ کرنے، ان کے شہر لوٹنے اور انھیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے پھر سے سر اٹھانے لگے۔ بالکل ایسا ہی ہوا اور یہ کوئی تعجب والی بات نہیں ہے کیونکہ انھوں نے منبع نور قرآن و سنت سے اپنا تعلق توڑ دیا تھا۔ انھوں نے جب صراط مستقیم سے انحراف کیا تو اب ان کے سامنے ہزاروں راستے تھے۔ جن کی منزل کوئی نہ تھی۔ اور ایسے اندھیرے میں جا پڑے ہیں کہ کہیں سے کوئی روشنی کی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ وہ ایسے حیران و سرگرداں ہیں کہ پوچھتے پھرتے ہیں: ’’نجات کیسے ممکن ہے؟ ‘‘ ’’ہم اپنی حالت کیسے بدل سکتے ہیں؟ ‘‘ تو تم اس مصیبت سے نجات صرف اس صورت میں پا سکتے ہو کہ تم دوبارہ وہی راستہ اپنا لو اور اسی اسوۂ حسنہ پر چل پڑو جس پر چلتے ہوئے تم نے ترقی اور عروج حاصل کیا تھا۔ تم اپنے رب کی کتاب کی طرف لوٹ آؤ۔ اس کے فیصلوں کو اپنی زندگی کا دستور مانو اور انھیں اپنے اعمال کے لیے شریعت تسلیم کرو۔ اگر تم ایسا کر لو تو تمھیں تمھارے غصب شدہ شہر اور گھر واپس مل جائیں گے۔ کتاب اللہ کو حاکم بناؤ، تم بہترین امت کہلاؤ گے۔ وہ امت جسے اللہ نے پسند فرمایا اور تمام مخلوقات سے بڑھ کر اس پر اپنا فضل و کرم کیا اور اسے بہترین امت قرار دیا، ارشاد فرمایا: ﴿ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ﴾