کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 38
اے اللہ! میں تمھیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں بھی ان کے بارے میں وہی کچھ کہتا ہوں جو ان لوگوں نے کہا ہے یا اس سے بھی بَڑھیا کلمات کہتا ہوں۔[1] سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جو بہت جلیل القدر عالم اور فقیہ ہیں، انھوں نے لوگوں پر پابندی لگائی کہ جب تک عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تم میں موجود ہیں تم کسی اور سے کوئی فتویٰ نہیں پوچھو گے۔ یہ پابندی انھوں نے اس بنا پر لگائی کہ جن دنوں وہ کوفے کے امیر تھے ان سے کسی نے مسئلہ پوچھا: جو شخص اللہ کے راستے میں آگے بڑھتے ہوئے شہید ہو جائے تو اس کا ٹھکانا کہاں ہے؟ آپ نے جواب دیا: وہ جنتی ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سائل سے فرمایا: امیرِ محترم کے سامنے سوال دوبارہ دہرایے، شاید وہ سمجھے نہیں ہیں۔ سائل نے دوبارہ عرض کی: اے امیر محترم! میں نے پوچھا ہے کہ آپ اس آدمی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو فی سبیل اللہ لڑتے ہوئے مارا جائے جبکہ وہ آگے بڑھنے والا ہو، پیٹھ نہ دکھانے والا ہو؟ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے دوبارہ وہی جواب دیا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پھر عرض کی: جناب! آپ اپنا مسئلہ ایک مرتبہ پھر وضاحت سے پوچھیے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امیر صاحب کو سوال کا مضمون سمجھ نہیں آیا۔ اس نے تیسری مرتبہ سوال دہرایا۔ آپ نے پھر بھی وہی جواب دیا اور کہا: مجھے تو اتنا ہی علم ہے۔ آپ کیا فرماتے ہیں؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میرا یہ جواب نہیں ہے۔ ’’تو آپ کیا فرماتے ہیں؟‘‘ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عرض کی۔
[1] الطبقات الکبرٰی:3؍110۔