کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 37
رنج ہوا ہے کہ میں نے اہل شام کو ان کی زیادہ مشقت اور مسافت کی بنا پر تم پہ فضیلت دی ہے، حالانکہ میں نے ابن ام عبد (ابن مسعود رضی اللہ عنہ (کو تمھاری طرف بھیج کر تمھیں ترجیح دی ہے۔ گویا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انھیں اپنا یہ احسان یاد دلا رہے ہیں کہ انھوں نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو کوفہ بھیج کر اہل کوفہ کو اپنی ذات پر ترجیح دی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس عظیم شخصیت کے مقام و مرتبہ سے واقف تھے اور انھیں وہ عظیم ذمہ داری سونپی جسے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسی جلیل القدر شخصیات ہی سر انجام دے سکتی ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اشخاص کی قدر و منزلت سے خوب آگاہ تھے اور جو بات آپ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمائی اسی طرح کے تأثرات ہر وہ شخص بیان کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جسے تھوڑا بہت آپ کی شخصیت کا ادراک ہوتا ہے۔ چنانچہ حبہ بن جوین کہتے ہیں: ایک دفعہ ہم سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بعض اقوال کا تذکرہ کیا تو پوری قوم نے آپ کے بارے میں تعریفی کلمات کہے، پھر انھوں نے کہا: اے امیر المومنین! ہم نے حسن اخلاق، اچھی تعلیم، اچھی مجلس، تقوے اور ورع کے لحاظ سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ خلیفہ راشد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمھیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا یہ بات تم اپنے دل سے کہہ رہے ہو؟ انھوں نے کہا: جی ہاں! آپ نے کہا: