کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 36
وقف کر دی۔ یقیناً اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ آپ کو جنت عطا کر دیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ، نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ، نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ ، وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴾ ’’بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر اسی پر قائم رہے۔ ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو بلکہ اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ تمھاری دنیوی زندگی میں بھی ہم تمھارے رفیق ہیں اور آخرت میں بھی رہیں گے۔ جس چیز کو تمھارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمھارے لیے (جنت میں موجود) ہے۔ غفور و رحیم (اللہ) کی طرف سے یہ سب کچھ بطور مہمانی کے ہے۔ اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘ [1] بعض اہل کوفہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ملاقات کے لیے گئے۔ انھوں نے ہمیں عطیات سے نوازا اور اہل شام کو ہم سے زیادہ عطا کیا۔ ہم نے گزارش کی: اے امیر المومنین! آپ نے اہل شام کو ہم سے زیادہ دے کر انھیں ہم پر فضیلت دی ہے؟ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اہل کوفہ! کیا تمھیں اس بات پر
[1] حٰمٓ السجدۃ 41 :33۔30۔