کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 33
اے ابن مسعود! تیرے نصیبے کے کیا کہنے! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تیری بات مان لی۔ یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تیرا عظیم مرتبہ اور مقام تھا، اس لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’عمار رضی اللہ عنہ اور ابن ام عبد (عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ)کی سیرت و کردار کو اپنا لو۔‘‘[1] پھر ارشاد ہوا: ’’مجھے اپنی امت کے لیے وہی چیز پسند ہے جو ابن ام عبد کی پسند ہے اور وہ چیز اپنی امت کے لیے ناپسند ہے جسے ابن ام عبد ناپسند کرتے ہیں۔‘‘ [2] اس سے بھی بڑھ کر بلند درجہ جس کا مقابلہ ممکن نہیں وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت دی۔ [3] وقت تیزی سے گزرتا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ ان کے ایک ہاتھ میں مصحف تھا تو دوسرے ہاتھ میں وہ تلوار تھی جو صرف اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے، کلمۂ توحید کی سر بلندی کے لیے اور دین الٰہی کی نصرت کے لیے اپنی میان سے باہر آئی تھی۔ فی سبیل اللہ نکلنے والے ان لشکروں اور معرکوں کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا کیا موقف تھا یا ان کا اس عرصے میں کیا کردار تھا؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں انھیں کوفہ منتقل ہونے کا حکم دیا۔ ان دنوں کوفہ فتنہ و فساد کا گڑھ بن چکا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری امت کو تعلیم و تربیت دینا تھی۔ اس کے لیے انھوں نے کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مأخذ بنایا۔
[1] السلسلۃ الصحیحۃ، حدیث: 1233۔ [2] الاستیعاب: 1؍371، والمستدرک للحاکم: 3؍359، ومسند البزار:1؍314۔ [3] الاستیعاب: 1؍302۔