کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 32
نے لگایا تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور کو حکم دیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ابن ام عبد! تم خطبہ دو۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، انھوں نے حمد و ثنا کے بعد کہا: اے لوگو! بے شک اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے اور اسلام ہمارا دین ہے اور یہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم)ہمارے نبی ہیں۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم اس پر راضی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے پسند کیا ہے، والسلام علیکم۔ یہ خطبہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابن ام عبد نے درست اور سچ کہا ہے۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربت وصحبت کا یہ عالم تھا کہ آپ نہایت اہم امور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے رد نہیں کرتے تھے۔ اسیرانِ بدر کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اس وقت مالی لحاظ سے نہایت کمزور ہو، لہٰذا ان کافروں میں سے کوئی بھی بغیر فدیے کے واپس نہ جائے۔ ان سے یا تو فدیہ لو یا پھر ان کی گردن مار دو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عرض کرنے لگے: یا رسول اللہ! سہیل بن بیضا کو رعایت دے دیں۔ میں نے اس کو اسلام کا اچھے لفظوں میں تذکرہ کرتے ہوئے سنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ (گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی سفارش رد نہیں کی۔) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ سہیل بن بیضا سے نرمی برتی جائے گی تب تک مجھے اپنے اوپر آسمان سے پتھر برسائے جانے کا خوف لاحق رہا۔ [2]
[1] تذکرۃ الحفاظ للذھبي: 1؍14۔ [2] تاریخ الطبري:3؍1357۔