کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 31
مجھ سے بڑا کوئی سردار قتل بھی کیا ہے؟ مجھے بتاؤ کہ فتح کسے حاصل ہوئی ہے؟ ’’اللہ اور اس کے رسول کو۔‘‘ میں نے کہا۔ پھر میں نے اس کے سر کو جسم سے علیحدہ کیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا اور کہا: یا رسول اللہ! دیکھیے، یہ اللہ کے دشمن ابوجہل کا سر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تجھے اللہ وحدہ لا شریک کی قسم! کیا واقعی یہ ابو جہل کا سر ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، پھر میں نے سرِ غرور کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدموں میں پھینک دیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’الحمد للہ‘‘ کہا۔[1] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ شخصیات ہیں جن کی تربیت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور کتاب اللہ کے ذریعے سے انھیں ادب سکھایا۔ آپ نے انھیں قائدین امت اور رہنمائے ملت بنایا اور وہ اتنے قابل بنے کہ جو کام حکومتیں بڑی محنت اور کوشش سے پایۂ تکمیل تک پہنچاتی ہیں وہ انھیں بڑی آسانی سے انجام دیتے۔ معاشرتی تعمیر نو اور سیاسی معاملات کو بڑے احسن انداز سے نپٹاتے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بڑے فصیح اللسان اور قوی الحجۃ تھے۔ واضح دلیل اور شاندار پیرائے میں گفتگو کرتے تھے۔ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا مختصر خطبہ ارشاد فرمایا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مختصر خطبہ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خطبہ دینے کے لیے کہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اتنا وقت نہیں لگایا جتنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:1؍ 277,276۔