کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 30
لوگ فخر و غرور میں مگن ہوں۔ حامل قرآن کے لیے لازم ہے کہ وہ خوف خدا سے اشکبار ہوجانے والا ہو، اسے بڑا حکیم اور برد بار ہونا چاہیے۔ اسے خاموش طبع اور سنجیدہ نظر آنا چاہیے۔ حامل قرآن کے لیے یہ ہرگز لائق نہیں کہ وہ سنگ دل، واویلا کرنے والا یا فساد پھیلانے والا ہو۔ [1] حافظِ قرآن تو آسمانی ہدایت کا حامل ہوتا ہے، اسے تو راہنما طرز ہونا چاہیے۔ وہ تو اندھیری رات کی تاریکی میں اللہ تعالیٰ کے نور کو اٹھانے والا ہوتا ہے، اسے تو پُرنور ہونا چاہیے۔ وہ زمین و آسمان کے خالق کی طرف سے آنے والی رحمت کا محافظ ہوتا ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ رحیم و شفیق ہو۔ یہ وہ چند صفات تھیں جن کے زیور سے ان لوگوں کو ضرور آراستہ ہونا چاہیے جنھیں اللہ تعالیٰ نے حفظِ قرآن اور ترتیلِ قرآن کی نعمت سے نوازا ہے۔ غزوۂ بدر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بڑا بہادرانہ کردار ادا کیا اور انھوں نے اللہ کے دشمن ابوجہل کی گردن بھی تن سے جدا کی تھی۔ حق و باطل کا پہلا معرکہ اپنے اختتام کو پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو مقتولینِ بدر میں ابوجہل کا لاشا تلاش کرنے کا حکم دیا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابوجہل کو پالیا۔ ابھی اس کی کچھ سانسیں باقی تھیں کہ میں نے اس کی گردن پر اپنا پاؤں رکھ دیا۔ اس نے بھی کئی مرتبہ مکہ میں میری گردن دبوچی تھی اور مجھے گھونسے مارے تھے۔ میں نے اس کی گردن پر پاؤں رکھتے ہوئے کہا: او اللہ کے دشمن! اب مانتا ہے کہ اللہ نے تجھے ذلیل و رسوا کر دیا؟ ابوجہل: وہ کیسے؟ کیا تم نے
[1] حلیۃ الأولیاء:1؍130۔