کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 29
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسلام اور نبوی مدرسے میں علوم قرآن و حدیث حاصل کرنے کے لیے زیر تعلیم تھے اور اس احساس کا ان پر اتنا گہرا اثر تھا کہ وہ راتیں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارتے اور دن بھی نوافل کی حالت میں گزار دیتے۔ دنیا جہان کا کوئی کام انھیں اس عمل سے نہ روک پاتا۔ دنیا ان سے جو مطالبہ کرتی وہ اسے بڑی خوشی سے ردّ کر دیتے۔ وہ ہر وقت اپنے آپ کو دین الٰہی کی نصرت و حمایت کے لیے تیار رکھتے۔ ان کے دل شوق شہادت میں ڈوبے ہوتے تھے، وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مصداق تھے: ﴿ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا ﴾ ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں، آپس میں رحم دل ہیں۔ تو انھیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضا مندی کی جستجو میں ہیں۔‘‘ [1] حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زندگی مذکورہ صفات کا مرقّع تھی۔ آپ نے اپنی زندگی کتاب الٰہی کی جمع و تدوین کے لیے صرف کر دی۔ آپ کا دل قرآنی تاثیر سے منور تھا۔ آپ مدرسۃ القرآن میں قرآنی تعلیمات پر غور و فکر کرتے۔ آپ فرماتے ہیں: حامل قرآن کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسروں سے ممتاز نظر آئے، جب لوگ سو رہے ہوں تو وہ شب بیداری کر ے اور دن کو روزہ رکھے جب لوگ کھانے پینے میں مشغول ہوں۔ جب لوگ خوش ہو رہے ہوں تو وہ اپنے غم کو یاد کرے۔ جب لوگ ہنس بول رہے ہوں تو وہ اپنے گناہ یاد کرکے رو رہا ہو، جب دوسرے لہو ولعب میں مشغول ہوں تو وہ غور و فکرکرتا دکھائی دے اور اسے تقویٰ و خشیت الٰہی اختیار کرنی چاہیے، جب
[1] الفتح 48 :29۔