کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 28
رسول اللہ! میں سناؤں!؟ حالانکہ نازل تو آپ پر ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں! تم ہی سناؤ۔ میں نے سورۂ نساء کی تلاوت شروع کر دی۔ جب میں اس آیت پر پہنچا:
﴿ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا﴾
’’پس کیا حال ہو گا جس وقت ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان (لوگوں) پر گواہ بنا کر لائیں گے۔‘‘ [1]
میں نے آپ کی طرف نظر اٹھائی تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔[2]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک دفعہ ہم سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر میں آپ کی بعض ضروریات کے متعلق رات گئے تک بات چیت کرتے رہے، پھر ہم مسجد نبوی کی طرف چل دیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے درمیان میں چل رہے تھے۔ ہم مسجد پہنچے تو دیکھا کہ ایک آدمی قرآن پاک کی تلاوت کر رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں ٹھہر گئے اور بڑے غور وخوض سے تلاوت سماعت فرمانے لگے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو دیر ہو رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچوکا مار کر خاموش کر دیا۔ وہ آدمی تلاوت کرتا رہا، پھر اس نے رکوع و سجود کیا، پھر دعا و استغفار میں مشغول ہو گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاری سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’مانگو! اللہ تعالیٰ تمھیں ضرور دے گا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’جسے پسند ہو کہ وہ قرآن کو اس طرح تروتازہ پڑھے جس طرح وہ نازل ہوا ہے تو وہ ابن ام عبد (ابن مسعود) رضی اللہ عنہ کی قراء ت کے مطابق پڑھ لے۔‘‘ [3]
[1] النساء 4 :41۔
[2] صحیح البخاري، حدیث: 4582۔
[3] حلیۃ الأولیاء:1؍124، وسنن ابن ماجہ، حدیث: 138۔