کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 272
دوسری طلاق دوسرا تجربہ اور آخری امتحان ہوتا ہے۔ اگر تو اس مرحلے میں اصلاح کر لیں تو بعد کی زندگی بہتر ثابت ہوسکتی ہے اور اگر اس دورانیے میں بھی اصلاح نہ ہوسکے تو پھر تیسری طلاق ہوتی ہے اور یہ طلاق اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ آئندہ یہ میاں بیوی ایک ساتھ ہنسی خوشی نہیں رہ سکتے۔ صحیح بخاری میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں ثابت پر کسی برے اخلاق یا دین کا کوئی عیب نہیں لگاتی لیکن میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں، (یعنی میں اپنے خاوند کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی کیونکہ میں اسے پسند نہیں کرتی اور اسی وجہ سے میں اس کی فرماں برداری بھی نہیں کرتی جو کہ گویا کفر ہے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تو اسے اس کا باغ واپس کرے گی؟‘‘اس نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ باغ واپس لے لے اور عورت کو طلاق دے دے۔[1] ایک روایت میں ہے کہ ابو جریر نے عکرمہ سے پوچھا: کیا خلع کی کوئی دلیل ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے: اسلام میں سب سے پہلا خلع عبد اللہ بن ابیّ کی بہن نے لیا تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! میرے اور میرے خاوند کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہوسکتی۔ اس کا رنگ کالا سیاہ ہے، قد بہت چھوٹا ہے اور بہت ہی بدصورت ہے۔ اس کے خاوند نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اسے اپنی محبوب ترین جائیداد دی تھی اور وہ باغ تھا۔ اگر یہ مجھے میرا باغ واپس کردے تو میں سوچتا ہوں۔
[1] صحیح البخاري، حدیث: 5273۔