کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 271
﴿ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ﴾ ’’اور ان کے خاوند اگر اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں تو وہ زیادہ حق دار ہیں کہ انھیں اس (مدت) میں لوٹا لیں۔‘‘[1] آیت میں مذکور ﴿ فِي ذَلِكَ ﴾ کے الفاظ سے عدت کا عرصہ مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾ ’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دو، پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو تم انھیں اس بات سے مت روکو کہ وہ اپنے (پہلے) خاوندوں سے نکاح کریں جبکہ وہ دستور کے مطابق آپس میں راضی ہوں۔ یہ اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔ تمھارے لیے بہت سلجھا ہوا اور زیادہ پاکیزہ طریقہ یہی ہے۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘[2] اچھائی، بھلائی اور خوبصورتی زندگی کے ہر موڑ میں نمایاں نظر آنی چاہیے، خواہ میاں بیوی کا مقدس رشتہ برقرار ہو یا ٹوٹ چکا ہو۔ تکلیف اور ایذا ہرگز نہ پہنچائی جائے۔ حالت طلاق اور جدائی میں بھی ایمان باللہ اور ایمان آخرت کا بلند معیار اسی طرح برقرار رہنا چاہیے۔
[1] البقرۃ 228:2۔ [2] البقرۃ 232:2۔