کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 270
’’او ر اگر تمھیں دونوں (میاں بیوی) میں جھگڑے کا ڈرہوتو ایک شخص مرد کے کنبے سے اور ایک عورت کے کنبے سے منصف مقرر کرو، اگر وہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان دونوں (میاں بیوی) میں موافقت پیدا کر دے گا، بے شک اللہ بہت علم والا، خوب خبردار ہے۔‘‘[1] اسلام اس آخری حربے، یعنی طلاق تک پہنچنے سے پہلے اس بات کا حکم دیتا ہے کہ جھگڑے کی صورت میں میاں اور بیوی کے گھر والوں سے ایک ایک فیصل مقرر کیا جائے جو ان کے درمیان حق کا فیصلہ کریں اور انھیں راضی کرنے کی کوشش کریں۔ یہ فیصل مکمل طور پر یک طرفہ ہوکر، اپنے ذاتی اشتعالات سے دور رہ کر اور ذہنی خرابیوں سے بالا تر ہو کر فیصلہ کریں۔ کیونکہ یہ وہ خرابیاں ہیں جو زوجین کے پاک صاف تعلق کو گدلا کر دیتی ہیں، زندگی کی فضا کو آلودہ کردیتی ہیں۔ فیصلہ کرنے والے دونوں خاندانوں کی نیک نامی ہی کو سامنے رکھیں۔چھوٹے چھوٹے بچوں پر شفقت کرتے ہوئے ان کی معصومیت کو سامنے رکھیں، میاں بیوی میں سے کسی کی طرف داری نہ کریں۔ زوجین، بچوں اور ان کے مقدس رشتے کی خیر خواہی مطلوب ہو۔ جب یہ تمام تر کوششیں ناکام ثابت ہوجاتی ہیں تو طلاق ہوجاتی ہے۔ پہلی طلاق تو میاں بیوی کے لیے ایک تجربہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ ہمارے جدا اور اکٹھے رہنے میں کتنا فرق ہے۔ جب عدت کے دوران میں ان دونوں کے لیے واضح ہوجائے کہ ان کا اکھٹے رہنا ممکن ہے تو دونوں کے لیے راستہ کھلا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[1] النساء 4 :35۔