کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 27
اپنے دل میں کہا: ہو نہ ہو یہ مجھ سے کہیں بہتر سواری تیار کر سکتا ہے، چنانچہ اس نے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کونسی سواری زیادہ پسند ہے؟ میں نے کہا: طائفی اور مکی۔
تو اس نے وہی سواری تیار کر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھ لیا کہ آج ہماری سواری کس نے تیار کی ہے۔ جواب ملا کہ طائف کے باشندے نے انتظام کیا ہے۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبداللہ (بن مسعود) سے کہو کہ وہ ہماری سواری تیار کرے، چنانچہ اس طرح میں دوبارہ اس عہدے پر فائز ہو گیا۔[1]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت بڑے انہماک سے کرتے اور ہر وقت خدمت اقدس میں حاضر رہتے۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اس بات کی گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں: میں نے جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ ہوتے۔ ایسے لگتا جیسے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کے فرد ہیں۔
حضرت علقمہ رحمہ اللہ جو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد خاص ہیں، فرماتے ہیں: حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنی سیرت، عادات و اطوار اور وقار و تمکنت میں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے۔
حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، وقار و سنجیدگی اور وضع میں تمام لوگوں سے بڑھ کر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مشابہت رکھتے تھے۔ [2]
آپ قرآن پاک کو بڑی خوبصورت آواز میں پڑھا کرتے تھے۔ آپ کی تلاوت سن کر دلوں میں خشیت الٰہی اور ایمان بھر جاتا تھا۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں۔ میں نے عرض کی: یا
[1] عیون الأخبار:2؍30۔
[2] صحیح البخاري، حدیث: 6097۔