کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 269
’’اور (یہ بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اوراس نے تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی، بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے عظیم نشانیاں ہیں جو غوروفکر کرتے ہیں۔‘‘[1] اس آیت سے خاوند بیوی کے مقدس رشتے کی حکمت کا پتا چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ میاں بیوی دونوں کو ایسا بنادیتا ہے کہ دونوں میں ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے۔ دونوں شخصیات اپنی فطری، نفسیاتی، عقلی اور جسمانی ضروریات کو بڑی خوشی سے پورا کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی قربت سے راحت، اطمینان، محبت و مودت محسوس کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں اپنی ضروریات ایک دوسرے کے تعاون ہی سے پورا کرسکتے ہیں۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ مرد اور عورت اسی بابرکت بندھن میں پرو دیے جاتے ہیں تاہم دونوں میں موافقت قائم نہیں ہوپاتی بلکہ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اس صورت حال میں کیا کیا جائے؟ طلاق اور جدائی واقع ہوگی، طلاق تمام حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسند ہے، اس لیے طلاق کو اس وقت اختیار کیا جائے جب کوئی اور چارہ کار نہ ہو۔ زوجین کے اختلاف کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللّٰهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا﴾
[1] الروم 21:30۔