کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 262
پھر ان کے دل میں خیال آیا کہ انھیں اپنا نیزہ کند کردینا چاہیے، اپنی تلوار دفن کر دینی چاہیے حتی کہ اسے مٹی اور زنگ کھا جائے۔
چنانچہ وہ اپنے گھر میں بیٹھ گئے اور اس مصیبت کے زائل ہونے کا انتظار کرنے لگے جس سے مسلمانوں کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی تھی لیکن یہ عرصہ طویل سے طویل ہوتا گیا۔ مصیبت کی رات ختم ہوئی نہ خوشخبری کے ساتھ صبح نمودار ہوئی۔
بلآخر سانس کم پڑ گئے، رفیق اعلیٰ کی ملاقات کا وقت قریب آگیا جس نے مومنوں سے ہمیشہ کی جنت کا وعدہ کیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے آخری ایام میں بصرہ میں اِن کی وفات ہوئی تھی۔[1]
ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ یزید بن معاویہ کے دور میں فوت ہوئے تھے۔
[1] الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب: 3؍1433۔