کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 261
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کو اپنے دوست اور کمانڈر کی شہادت کا بہت دکھ ہوا کیونکہ ارضِ فارس پر ابھی ان کی قیادت کی ضرورت تھی لیکن ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے اور ان کے ساتھی کو تو اللہ تعالیٰ نے رتبۂ شہادت سے نوازا ہے۔ (معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے سوچا)۔
نعمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ایک اور معرکہ ہوا جو ارض اصفہان پر ہوا۔ اس واقعے کو معرکۂ اصفہان بھی کہتے ہیں۔ مسلمانوں کو اس میدان میں بھی فتح حاصل ہوئی۔ اسلامی لشکر وہاں سے ’’جَیّ‘‘ کی طرف بڑھا۔ یہ علاقہ بغیر جنگ اور لڑائی کے فتح ہو گیا۔
اس کے بعد کیا ہوا؟
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کا کیا کردار سامنے آیا؟
کیا عثمان رضی اللہ عنہ نے انھیں عامل بنایا؟ یا وہ عثمان رضی اللہ عنہ پر دھاوا بولنے والوں میں شامل تھے؟ یا فتنے سے بچنے کے لیے الگ تھلگ ہوکر بیٹھ گئے تھے؟ تاریخ اس کے بارے میں مکمل خاموش ہے، البتہ تاریخ میں یہ مذکور ہے کہ جنگ صفین جو کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ کے مابین ہوئی تھی، اس میں معقل رضی اللہ عنہ کنانہ، اسد، تمیم، رباب اور مزینہ قبائل کی قیادت کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ یہ تمام قبائل سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حمایتی تھے۔ معرکے کے اختتام پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ غالب آئے اور مخالفین کو شکست ہوئی۔
اس معرکے میں سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے بڑے ہولناک مناظر دیکھے۔ انھوں نے تو اپنی تلوار جہاد فی سبیل اللہ اور کفر کے طاغوتوں کے لیے تیار کر رکھی تھی۔ اب یہ کیا کہ ان کی تلوار ایسے لوگوں پر اٹھ رہی ہے جو لا إلہ إلا اللّٰہ کا اقرار کرتے ہیں، یعنی اپنے ہی مومن بھائیوں کے خلاف جنگ ہوگی۔ انھوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا۔