کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 258
تین حصوں میں ہوجائیں۔ ایک گروہ اپنے اہل خانہ میں رہے، ایک گروہ اپنے اہل معاہدہ کے ساتھ رہ کر یہ دھیان رکھے کہ وہ بدعہدی نہ کر پائیں اور ایک گروہ کوفے میں اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے روانہ ہوجائے۔ کل عجم والے آپ کو دیکھیں گے تو کہیں گے: یہ امیر المومنین اور عرب کے سردار ہیں، اس لیے وہ آپ پر حملہ آور ہونے کے شدید حریص ہوں گے، (لہٰذا آپ پیچھے رہ کرجنگی اقدامات کریں تو زیادہ مناسب ہوگا)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ اچھی رائے ہے۔ میں اسی مشورہ پر عمل کرنا پسند کرتا ہوں۔[1]
لیکن پھر مسلمانوں کے لشکروں کی قیادت کون کرے گا؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے آدمیوں کی خصوصیات سے مکمل باخبر تھے، ان کے نزدیک قیادت و سیادت کا زیادہ حق دار وہ تھا جو زیادہ پرہیزگار اور خشوع وخضوع والا ہو، نماز میں بھی اور جملہ امور میں بھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ابھی اس کے بارے میں غور و فکر کررہے تھے کہ ایک دن آپ مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص بڑے انہماک اور خشوع سے نماز پڑھ رہا ہے، جسمانی لحاظ سے بڑا فٹ نظر آرہا تھا، مضبوط بازو اور لمبا قد واضح طور پر معلوم ہو رہا تھا۔
عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’یہ کون شخص ہے؟‘‘ بتایا گیا کہ یہ نعمان بن مقرّن ہیں۔ آپ نے فرمایا: انھیں میرے پاس لاؤ۔ جب وہ سامنے بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا: میں نے آپ کو ایک عظیم مہم کے لیے منتخب کیا ہے۔
انھوں نے عرض کی: اے امیر المومنین! اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ میں صدقات جمع کروں تو میں یہ کام احسن انداز سے سرانجام نہیں دے سکوں گا اور اگر آپ مجھے جہاد اور شہادت فی سبیل اللہ کے لیے چن رہے ہیں تو آپ کا انتخاب اچھا ہے۔‘‘
[1] الکامل لابن الأثیر:3؍8، البدایۃ والنہایۃ:7؍119۔