کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 257
کے لیے تیار ہیں۔ آپ ہماری قیادت کریں، ہم آپ کی قیادت میں لڑنے کے لیے مستعد ہیں۔ آپ ہمارے امیر ہیں، آپ ہمیں پہلے بھی آزماچکے ہیں۔‘‘ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’اے امیر المومنین! میری رائے یہ ہے کہ آپ اہل شام کو لکھیں، وہ شام سے روانہ ہوں۔ اسی طرح اہل یمن کو دعوت دیں، وہ وہاں سے روانہ ہوں، پھر آپ اہل حرمین کو لے کر کوفہ اور بصرہ کو رخت سفر باندھیں، وہاں آپ مشرکین کے ساتھ جنگ کریں۔ اس طرح آپ کی تعداد دشمن کی تعداد سے زیادہ ہوگی اور آپ دفاعی لحاظ سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوں گے۔ اے امیر المومنین! واقعتا یہ اہم دن اور اہم معاملہ ہے، آپ ضرور اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس میں حصہ لیں، آپ کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔‘‘ اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انھوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے امیر المومنین! اگر آپ اہل شام کو جنگ میں شریک کریں گے تو رومی ان کے اہل خانہ پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ نے اہل یمن کو جنگ میں شرکت کی دعوت دی تو اہل حبش ان کے پیچھے سے حملہ کرسکتے ہیں ۔ اگر اس سرزمین کے لوگ جنگ میں شریک ہوں گے تو اطراف و اکناف کے لوگ ہم پر ٹوٹ پڑیں گے۔ آپ کو اپنے سامنے کے حالات سے زیادہ ان معاملات کی فکر لاحق ہوگی جنھیں آپ پشت پر غیر محفوظ چھوڑ کرآئے ہوں گے۔ ان سب لوگوں کو اپنے اپنے علاقے ہی میں رہنے دیجیے اور اہل بصرہ کو لکھ بھیجئے کہ وہ