کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 253
ساتھ کچھ نہیں لائیں گے۔‘‘[1] ابھی عہدنامہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ ابوجندل رضی اللہ عنہ وہاں پہنچ گئے۔ ابوجندل رضی اللہ عنہ سہیل بن عمرو کے بیٹے ہیں۔ ان کے پاؤں میں بیڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ مومن تھے اور مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوکر اپنے دین اور ایمان کو بچانا چاہتے تھے۔ سہیل بن عمرو نے دیکھتے ہی انھیں پکڑ لیا اور انھیں مارنے پیٹنے لگا اور کہا: ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کے آنے سے پہلے ہمارے اور آپ کے درمیان معاہدہ طے پاچکا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سچ ہے۔‘‘ سہیل بن عمرو ابوجندل رضی اللہ عنہ کو قریش کی طرف گھسیٹتے ہوئے لے جارہاتھا اور وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے: ’’اے مسلمانوں کی جماعت! کیا مجھے مشرکین کی طرف واپس لوٹا رہے ہو کہ وہ مجھے میرے دین کے بارے میں آزمائش میں ڈالیں؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابوجندل! صبر کرو اور نیکی کی امید رکھو۔ اللہ تعالیٰ ضرور تیرے لیے اور تیرے دوسرے کمزور ساتھیوں کے لیے کوئی راستہ اور کشادگی کی راہ نکالے گا۔ ہمارے اور قریش کے درمیان عقد ہوچکا ہے اور ہم نے اس پر اللہ کا عہد دیا ہوا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ان کو دھوکہ دیں۔‘‘ [2] اس سارے قضیے میں معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کا کیا کردار تھا؟ سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ اس صلح میں موجود تھے اور ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں
[1] البدایۃ والنہایۃ:4؍191۔ [2] البدایۃ والنہایۃ:4؍191۔