کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 246
پٹخ پٹخ کر مار رہی ہیں؟
یہ مسلمان کیوں سستی کا شکار ہوئے کہ قافلے میں سب سے پیچھے ہیں؟
ایک اعرابی سے پوچھا گیا: ’’تمھیں کیا پسند ہے؟ اللہ تعالیٰ سے ظالم بن کر ملنا چاہو گے یا مظلوم؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’ میں ظالم بن کر ملنا پسند کروں گا۔‘‘
پوچھا گیا: ’’تیرا برا ہو، کیوں؟ ‘‘
اعرابی: ’’اس وقت میرا کیا عذر ہو گا جب اللہ تعالیٰ کہے گا: میں نے تجھے مضبوط اور طاقتور پیدا کیا تھا تو تو کیوں مضبوط اور سخت نہ ہوا؟‘‘ گویا اس اعرابی کا اس آیتِ کریمہ کی طرف اشارہ تھا:
﴿ إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا فَأُولَئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴾
’’جن لوگوں کی اس حالت میں فرشتے جان قبض کرتے ہیں کہ وہ (جان بوجھ کر کافروں میں رہ کر) اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے ہوں ، تو فرشتے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟ وہ کہتے ہیں: ہم زمین میں کمزور تھے۔ تب فرشتے کہتے ہیں: کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے؟ چنانچہ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔‘‘[1]
کیا آج ایسے بہادر آدمیوں کی اولاد ان یہودیوں کا مقابلہ کرنے سے عاجز آ گئی ہے جنھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا:
[1] النساء 4 :97۔