کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 245
مکہ کے موقع پر ایمان لائے لیکن جیسے ہی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کلمۂ توحید پڑھا تو ان کی زندگی کی کایا پلٹ گئی۔ جاہلیت کے تمام جنگی قاعدے، قوانین اور رسوم و عادات یکدم باطل ہو گئیں۔
طائف کے محاصرے کے دوران جب جنگ ہوتی تو عبداللہ بن امیہ بن مغیرہ لڑائی کی جگہ کود پڑتے اور ان کے سورماؤں اور بہادروں کو یوں قتل کرتے گویا کہ وہ کاٹنے والی تلوار ہیں اور اب وہ کفر و جہالت کے ڈھیر زمین پر باقی نہیں رہنے دیں گے۔
سیدنا عبداللہ بن امیہ رضی اللہ عنہ اپنے عزم اور ارادے پر ڈٹے رہے۔ انھیں لوہے کی گرم سلاخیں، مضبوط قلعے، اونچے اونچے حصار اور رکاوٹیں جو لشکر اسلام کے راستے میں تھیں، ان کے ارادے سے ہٹا نہ سکیں۔ ان کے قلب و ذہن میں صرف ایک ہی جذبہ تھا اور وہ یہ کہ اللہ کے کلمہ کی نشرو اشاعت کی راہ میں جو بھی دیوار آئے اسے منہدم کر دیا جائے تا کہ یہ کلمہ ان لوگوں تک پہنچے جن تک ابھی دعوت اسلام نہیں پہنچی یا دعوت تو پہنچی ہے لیکن ظالم و جابر ان کے لیے رکاوٹ اور مصیبت بن کر سامنے آ گئے ہیں۔
بس کچھ لمحات ہی گزرے ہوں گے کہ میدان کا رزار میں سیدنا عبداللہ بن امیہ رضی اللہ عنہ جام شہادت نوش کر چکے تھے۔ شاید اس لیے کہ مسلمانوں کا فاتح لشکر انھیں اور ان جیسے دوسرے بہادروں کی لاشوں کو پل بنا کر آگے بڑھ جائے۔
آہ! اب ان عظیم لوگوں کی اولاد کو کیا ہو گیا ہے کہ اپنے باپ دادا کے راستے پر نہیں چلتے؟
کیا ہو گیا ہے ان مسلمانوں کو کہ وہ پوری زمین میں ایک کمزور جماعت سمجھے جا رہے ہیں یا قافلے میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں اور (ظلم و ستم کی) آندھیاں انھیں