کتاب: رجال القرآن 2 - صفحہ 244
مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی ایک ایسا وسیع مقام بن گیا جہاں رجال کار اور بہادر افراد جمع ہوتے، وہ اصولِ جنگ سے واقفیت پاتے، جنگ کی ٹریننگ حاصل کرتے اور لڑائی کے بہت سے اسلوب سیکھتے۔ ان کی محنت اور کوشش سے اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے طاغوتوں کو روندا اور بڑے سرکش اور جابر لوگوں کا گھیراؤ کیا۔ یہ لوگ دعوت حق کے پھیلاؤ میں رکاوٹ تھے اور عوام کو نئے دین پر چلنے سے روکے ہوئے تھے۔ اسلام کا لشکر جب اپنی شان و شوکت کو پہنچا تو وہ زمین کے بڑے حصے پر ایک عظیم قوت کے طور پر سامنے آیا ۔ اس نے روم و فارس کے لشکروں کو جس طرح روندا، تاریخ اس پر حیران ہے۔ مسلمانوں کی انتہائی تیز فتوحات کے بارے میں ایک مؤرخ نے تو یہ بھی کہا ہے: ’’زمین ان کے قدموں تلے سکڑ جاتی ہے۔‘‘ اور اس نے سچ کہا ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کی تبلیغ دین کے لیے زبردست قوت اور مصمم ارادوں کے سامنے زمین کی وسعتیں تنگ ہو گئیں، دوسرے الفاظ میں ان کے سامنے کوئی شہر باقی نہ رہا کہ جس کی طرف وہ اپنا رخ موڑیں، حتی کہ مسلمانوں کے قائدین کو کہنا پڑا: ’’اگر مجھے پتا ہو کہ اس سمندر کے پار ایسی قوم آباد ہے جو اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق نہیں کرتی تو میں ان کے لیے اپنے گھوڑے سمندر میں ڈال دیتا۔‘‘ اوائل اسلام میں پہلے لشکر والے یہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتے تھے کہ انھیں فتح چاہیے یا شہادت، جیسے جیسے ہم اسلام کے شروع والے زمانے کے قریب ہوتے جائیں گے تو ہم دیکھیں گے کہ مسلمان سخت لڑائی والی جگہ، شوقِ شہادت یا قتال کی غرض سے اس لیے کود پڑتے تھے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو اور کفر کا کلمہ نابود ہو جائے۔ عبداللہ بن امیہ بن مغیرہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتح